Skip to main content

کسب حلال (Earning Lawfully)


کسب حلال (Earning Lawfully)

Meaning of Kasb-e-Halal:

        Kasb-e-Halal means lawful, legal and Riba free earning.

Definition of Kasb-e-Halal:

       It is defined as all provisions and earnings that are Riba free, legal and lawful under the legitimation and having religious acceptance. It is also refers to the earnings which are according to the economic principles of Islam.
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الأرْضِ حَلالا طَيِّبًا وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِين
        O mankind, eat from whatever is on earth [that is] lawful and good and do not follow the footsteps of Satan. Indeed, he is to you a clear enemy.
(Al-baqarah-ayat-168).

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے ایمان والو یہ دوگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور ا للہ سے ڈرو کہ شاید نجات پاجاؤ

O ye who believe! Devour not usury, doubled and multiplied; but fear Allah; that ye may (really) prosper.

Aal-`Imraan -130

لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان اطیب ما اکللتم من  کسبکم
 (جو اپنے قوت بازو سے کما کے کھاتے ھوں  وہ سب سے پاکیزہ روزی ہے)
سنن الترمزی، الصفحۃ 210، الحدیث  1287

       The Prophet Muhammad    was asked what type of earning was best, and he replied:
“ A man’s work with his hands and every (lawful) business transaction.”
Al-Tirmidhi, Hadith 846

(i)                Special Message for Believers:

Allah Almighty says:
(فَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلالاً طَيِّبًا وَاشْكُرُواْ نِعْمَتَ اللہِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ) (النحل:114)
"جو کچھ حلال اور پاکیزه روزی اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔"
     “O you who believe (in Oneness of Allah – Islamic Monotheism) Eat of lawful things which we have provided you with, and be grateful to Allah, if it is indeed He whom you worship.”

(ii)             Special Message for Prophets:

                Allah Almighty says:
(يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ  إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ) (المومنون:51)
"اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔"
          “O (you) Messengers! Eat of the Tayyibat [all kinds of Halal foods which Allah has made lawful (meat of slaughtered eatable animals, milk products, fats, vegetables, fruits, etc.] and do righteous Deeds. Verily I am all knower what you do.

کسب حلال  اسلامی تعلیمات اور (Islamic Teachings on Lawful Earning)

قرآن کی روشنی میں (In Light of the Quran)

اسلامی تعلیمات کے مطابق خالقِ کائنات نے سب بنیادی ضرورتیں، سہولتیں، آسائشیں اور زیبائش کی چیزیں اس دھرتی میں پیدا کر رکھی ہیں ، جیسے قرآن مجید کا ارشاد ہے۔
وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِين (الحجر 20)َ   
        And we have made for you therein means of living and for those for whom you are not providers.
ہم نے تمہارے لیے رزق کے وسائل پیدا کر دیے ہیں اوران کے لیے بھی جن کو تم رزق نہیں پہنچاتے۔
 وَمَا ذَرَأَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَذَّكَّرُو
(النحل 13)
      And [He has subjected] whatever He multiplied for you on the earth of varying colors. Indeed in that is a sign for a people who remember.
       اور جو طرح طرح کے رنگوں کی چیزیں اس نے زمین میں پیدا کیں (سب تمہارے زیر فرمان کردیں) نصیحت پکڑنے والوں کے لیے اس میں نشانی ہے
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللہُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ). (المائدة: 87،88)
"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزه چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو، بےشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے حلال مرغوب چیزیں کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔"
(فَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلالاً طَيِّبًا وَاشْكُرُواْ نِعْمَتَ اللہِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ). (النحل:114)
"جو کچھ حلال اور پاکیزه روزی اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔"
اللہ کی جو نعمتیں ہیں ا ن سب کا شمار ممکن نہیں۔ وہ بےحد وحساب ہیں۔یہ زندگی نعمت ہے، یہ صحت یابی نعمت ہے، یہ آنکھیں نعمت ہیں، یہ کان نعمت ہیں،  یہ دل نعمت ہے،  پیر نعمت ہے،  ہاتھ نعمت ہے،جسم نعمت ہے، دماغ نعمت ہے،اولاد نعمت ہے،بیوی نعمت ہے، زمین نعمت ہے،آسمان نعمت ہے،بارش  نعمت  ہے،  ہوا نعمت ہے، پھل نعمت ہے، فصل نعمت ہے، چاندنعمت ہے، سورج نعمت  ہے، اور خود آپ کی زندگی نعمت ہے۔مگر ان ساری نعمتوں میں سب سے بڑی  نعمت، نعمتِ اسلام ہے۔
        ہم میں سے کون ہے جو نہیں چاہتا ہے کہ وہ گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ شاد ماں رہے  اور کون چاہتا ہے کہ وہ دوسروں پر بوجھ بن جائے۔ نہیں، ہر گز نہیں!  ہر انسان اپنا بو جھ خود  سے ڈھونے کا متمنی ہوتا ہے۔  بلکہ دوسروں کی کفالت کا آرزومند بھی۔ اور اس کے لیے انسان کو دنیا میں کچھ کرنے کی فطری ضرورت پڑتی ہے، اور اسی کا نام کسبِ معاش ہے۔ بلکہ یہ کسبِ معاش بذات خود انسان کی اپنی زندگی گزارنے کے لیے  بھی ایک امر نا گزیر ہے۔ جو انسان کسب معاش سے راہِ فرار اختیار کرتاہے، وہ نہ صرف اپنے گھر والوں کے لیے مصیبت ہے؛ بلکہ اپنے سماج کے لیے بھی وبال  جان اور بوجھ ہے۔
اس فطری ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے  کسب حلال کا اصول دنیائے انسانیت کے سامنے پیش کیا۔ تاکہ انسان صحیح زندگی  گزار سکے، اس کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی بن جائے۔ لہذا اللہ تعالیٰ  نے طیبات  یعنی  پاکیزہ چیزوں کو ہمارے لیے حلال قراردیا اور خبائث کو حرام ٹھہرایا ہے۔ چونکہ جو طیبات  میں سے ہیں وہ فی نفسہ بھی اچھی چیزیں ہے اور جسم اور عقل کے لیے بھی مفید اور غیر  ضرر رساں ہیں۔ اور جو حرام طریقہ سے کمایا جاتاہے وہ ہر طرح سے مضر ہوتاہے جسم کے لیےبھی,  دماغ کےلیے بھی، اور ایمان کے لیے بھی۔ یوں تواللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات  کے رزق کی ذمہ داری اپنے اوپر لے رکھی ہے۔


ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ) (هود:6)
"زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہےاور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔"
مگر  انسان سمجھتا  کہا ں ہے؟حالانکہ اللہ ہی  رزّاق ہے۔ یعنی  بہت  زیادہ دینے والا، خود مختار اور بہت طاقتور ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
(إِنَّ اللہَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ) (الذاريات:58)
"اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔"
ایکدوسری جگہ ارشاد ہے:
(وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ) (الذاريات:22)
"اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعده کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔"
ایک دوسرے  مقام پر ارشاد ہے:
 (نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ)
(الزخرف: 32)
" ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے۔"
نیز ارشار باری تعالیٰ ہے:
(اللہُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ) (الرعد:26)
"اللہ تعالیٰ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ۔"
اگر مذکورہ آیات کا آپ بغور مطالعہ کریں تو یہ بالکل صاف ہوجائےگاکہ رزق کی ذمہ داری اللہ پر ہے۔  وہ کسی کو بھوکے مرنے نہیں دےگا۔جب وہ ایک پرندہ کو روزی دیتاہے،  تو انسان کو بدرجۂ  اولیٰ دےگا۔
ارشاد ربانی ہے:
(وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ) (النجم:39)
"اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔"
اس لیے قرآن کریم میں مختلف انداز میں کسب معاش کا حکم دیا گیا ہے۔ بلکہ فرض تک قرار دیا گیا ہے  اور خصوصاً دن کا حصہ اس کے لیے مقررکیا  گیا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
(وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا) (النباء:11)
"اور دن کو ہم نے وقت روزگار بنایا۔"
       مطلب یہ ہے کہ دن کو روشن  بنایا تاکہ لوگ کسبِ معاش کے لیے جدوجہد کرسکیں۔ قرآن کریم کی  ایک دوسری  آیت میں اللہ تعالیٰنے رز ق کےتلاش کرنے والے اور اللہ کی راہ میں نکلنے والے کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔
(عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ ۙ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۚ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّـهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّـهَ ۖإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ) (المزمل:20)
"وه جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوں گے، بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل (یعنی روزی بھی) تلاش کریں گے اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی راه میں جہاد بھی کریں گے، سو تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو اور نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو۔ اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیاده پاؤ گے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔"
اس آیت کریمہ میں"وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ" سے مراد فکر معاش اور تجارت وکاروبار کےلیے  سفر کرنا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہے۔ اور یہ عمل اللہ کے نزدیک پسندیدہ  اعمال میں سے ہے۔
کسب حلال، شرافت کی علامت اور عزت ووقار کی دلیل ہے۔ انسان جب کسب حلال میں سر گرم رہتاہے تو اس کو نہ مسکنت چھوتی ہے، اور نہ وہ دوسروں کے سامنے  ہاتھ پھیلاتاہے۔ بےشک دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ایک معیوب چیزہے۔
حضرت لقمان حکیم کی طرف یہ منسوب  کیا جاتا ہے کہ اے میرے بیٹے  کسب حلال  کے ذریعہ فقر سے استغنا حاصل کرو۔ اس لیے کہ جس کو فقر لاحق ہوجاتا ہے، اس کے اندر تین خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں؛ (۱) دین میں کمزوری اور نرمی، (۲)عقل میں ضعف اور (۳) زوال مروت۔  اس کے برعکس کسب حلال  میں منہمک رہنے سے؛ (۱)  انسان کی  معیشت اچھی رہتی ہے۔ (۲) دین کی سلامتی بھی نصیب ہوتی  ہے۔ (۳) عزت وناموس کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔(۴) چہر ے سے نور ٹپکتاہے، اور لوگوں کی نگاہوں میں باوقار رہتاہے۔
مگر کسب حلال اس وقت ہے جب کسب معاشکا طریقہ بھی  حلال ہو اور شئ مطلوب بھی حلال ہو۔ ورنہ پھر کسب معاش وبال جان بن جاتا ہے۔ حرام طریقے سے کمائی ہوئی چیز اور حرام چیز دونوں ہی اللہ کے نزدیک غیرمقبول اورمستحق عذاب ہے۔ اور سماج میں بھی باعث ننگ وعار اور شرمندگی وندامت کا  سبب ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مکمل وضاحت کردی ہے:
(يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ  إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ) (المومنون:51)
"اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔"
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّـهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ)
(البقرۃ: 172)
"اے ایمان والو! جو پاکیزه چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو۔"
کیا آپ  کو معلوم ہے کہ زہد فی الدنیا کیا ہے؟ سب سے بڑا زہد فی الدنیا یہ ہے کہ انسان  حرام چیزوں کو ترک کردے۔ یہ کوئی زہد اور تقویٰ کی بات نہیں ہے کہ ایک طرف حرام چیزوں سے رزق حاصل کرےیا دوسروں پر ظلم کرےاور دوسری طرف زہد کا لبادہ اوڑھے رکھے۔

وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
        And do not eat of that upon which the name of Allah has not been mentioned, for indeed, it is grave disobedience. And indeed do the devils inspire their allies [among men] to dispute with you. And if you were to obey them, indeed, you would be associators [of others with Him].
         اور جس چیز پر خدا کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگ ان کے کہے پر چلے تو بےشک تم بھی مشرک ہوئے.
(Surah. Al-An'am, Ayah,121)
        
 معلوم ہوا کہ انسان کے وسائل رزق اس دھرتی پر موجود ہیں، لیکن اسلام چاہتا ہے کہ ہر شخص خود جدوجہد کرکے ان وسائل کو حاصل کرے، پھر ان سے اپنی ضرورتیں اورجائز خواہشیں پوری کرے، جس طرح مندرجہ ذیل آیات، احادیث اور سلف صالحین کے اقوال اور کردار سے ظاہر ہے۔

 (In Light of the Hadith)احادیث کی روشنی میں:

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”کسب الحلال فریضة بعد الفریضة“
" رزقِ حلال کی تلاش فریضہ عبادت کے بعد اہم فرض ہے۔"      (ابن ماجہ 224)
 ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اپنے لیے اوراپنے اہل وعیال کے لیے حلال رزق تلاش کرو، یہ بھی جہاد فی سبیل الله ہے ۔“ ایک اور روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی بھی کھانا نہیں ، الله کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔
ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا:
"عن عمر بن الخطاب قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لو أنكم كنتم توكلون علی الله حق توكله، لرزقتم كما يرزق الطير، تغدو خماصا وتروح بطانا" (قال أبو عیسی هذا حديث حسن صحيح). (سنن الترمذى:2344، صحّحہ الألبانی)
" اگر تم اللہ پر  کما حقہ اعتماد کرلو، تو جس طرح وہ پرندوں کو روزی دیتا ہے، اسی طرح  تم کو بھی دےگا کہ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں او رشام کو پیٹ بھرے واپس ہوتے ہیں۔"
ترمذی  شریف کی اس حدیث نے اس بات کی بالکل وضاحت  کردی ہے کہ رزق  اللہ کی جانب سے ملنا تو یقینی ہے۔ مگر اس پر بھروسہ بھی کرنا ہوگا اور چڑیوں کی طرح محنت بھی کرنی ہوگی۔ پھر معاش کے لیے گھر سے نکلنا بھی ہوگا۔ جیسے بھوکی چڑیا صبح کو  فکر معاش میں اللہ  پر بھروسہ کرکے اپنے گھونسلے سے نکلتی ہے  اور شام کو جب وہ واپس لوٹتی ہے تو اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے۔
اس حدیث  کے ذریعہ در اصل انسان کو ایک اہم  سبق سکھایا گیا اور ایک اہم اصول عطاکیا گیا ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ رزق کا  مالک صرف اللہ ہے، اور اس پر بھروسہ کرنا ضروری ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ اس کو حاصل  کرنے کے لیے انسان کو گھر سے  نکلنا ہوگا،اور محنت ومشقت  کرنی ہوگی،  اور بقدر محنت اس کاحصہ اس کو مل جائےگا، اور جتنا مل جائے یہی اس کی تقدیر ہے۔
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  حضرت عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہما کو مخاطب کرتے ہو‌ فرمایا:
"یا عمرو! نعم العمل الصالح مع الرجل الصالح" (صحیح ابن حبان۔ قال شعیب الأرنؤوط إسنادہ قوی علی شرط مسلم)
"اے عمرو! اچھا عمل، اچھے آدمی کے ساتھ کتنا اچھا ہے۔"
 بخاری شریف کی ایک روایت ہے:
"عن المقدام رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ما أکل أحد طعاما قط خیرا من أن یأکل من عمل یدہ وإن نبی اللہ داؤد علیہ السلام کان یأکل من عمل یدہ" (بخاری: 2072)
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے لیے بھی اس کے ہاتھ کی کمائی کے کھانے سے بہتر  کوئی کھانا   نہیں ہے۔ اور یہ کہ اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔"
آج یہ عجیب  وغریب بات ہے کہ پوری انسانیت دنیا  پرستی میں مگن ہے  اور اکتساب مال کے لیے نہ حرام  چیزوں کی پرواہ کی جاتی ہے  اور نہ ہی حرام طریقہ سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ بلکہ اکتساب مال میں تمام جائز وناجائز حربوں کو آزمانا کمال فن سمجھاجاتاہے۔ اس سے کوئی مطلب نہیں کہ یہ مال کہاں سے آتاہے اور اس کا مصرف کیا ہے؟ اس کے اثرات سے یہ نوبت آجاتی ہے کہ:(قد یصبح الإنسان مؤمنا ویمسی کافرا، وقد یمسی مؤمنا ویصبح کافرا)
"آدمی کبھی ایمان کی حالت میں صبح کرتا ہے، تو کفر کی حالت میں شام کرتاہے۔ اور کبھی  ایمان  کی حالت میں شام کرتا ہے تو کفر کی حالت میں صبح  کرتا ہے۔"
 یہی لوگ دینار اور درہم کے بندے ہیں، جن کے لیےسخت وعید آئی ہے۔
اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:
(کن فی الدنیا کأنک غریب أو عابرسبیل) (بخاری:6416، وابن ماجہ)
" تم دنیا میں اجنبی اور مسافر بن کر رہو۔ چونکہ انسان جب تک سفر اور غربت وطن میں رہتا ہے تو وہ حد درجہ محتاط اور دامن بچاکررہتاہے۔
"یقینا اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نبیوں اور رسولوں کو حکم دیا ہے، وہی عام مسلمانوں کو بھی حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: اے رسولو! تم پاکیزہ چیزوں کوکھاؤ، اور اچھے کام کرو۔ اور اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تم کو دی ہے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کاذکر کیا، جو لمبا سفر کرتا ہے، پراگندہ حال، گرد آلود اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف کیے ہوئے رہتاہے  اور گڑگڑا کردعا مانگتا ہے کہ اے میرے رب! تو ایسا  کر، یہ دے دے، وہ دے دے، حالانکہ اس کا کھا نا حرام ہے، پینا حرام ہے، اور اس کا پہننا حرام ہے، اور حرام مال ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہے۔ تو اس کی دعا کس طرح قبول کی جائےگی۔
دوسری دلیل حدیث شریف سے ہے:
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ایک شخص لکڑی کاگٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے اور اسے بیچ کرگزارا کرے، یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے، وہ اسے دے یا انکار کردے۔" (بخاری: 1470، مسلم: 1042)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان اطیب ما اکللتم من  کسبکم (جو اپنے قوت بازو سے کما کے کھاتے ھوں  وہ سب سے پاکیزہ روزی ہے)
سنن الترمزی، الصفحۃ 210، الحدیث  .1287)
عَنِ الْحَسَنِ , عَنْ أَبِى سَعِيدٍ , عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ:التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ.أخرجه يَعْلَى.
 و\"الدارِمِي\" 2539 قال : أخبرنا قَبيصة. والتِّرْمِذِيّ\" 1209 السلسلة الصحيحة 9/240
سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور ولیوں کے ساتھ ہوگا۔“

اپنے ہاتھ سے کماکر کھانا انبیا ء اور صلحاء کی سنت:

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: "كان زكريا عليه السلامنجارا"
(سنن ابن ماجه: 2150، قال الشيخ الألبانی: صحيح)
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا حضرت زکریا بڑھئی تھے۔"
حضرات سامعین! انسان کو  یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جب تک اس  کے رزق کا ایک دانہ بھی باقی ہے اس کو موت نہیں آسکتی ہے۔ لہذاانسانکو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور کسب معاش میں حلال طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
"عن جابر بن عبدالله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا تبسطوا الرزق فإنه لن يموت العبد حتی يبلغه آخر رزق هو له، فأجملوا في الطلب: أخذ الحلال وترك الحرام" (أخرجه ابن حبان فی صحيحہ، قال شعيب الأرنؤوط: إسناده صحيح على شرط مسلم)
"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رزق کو زیادہ مت پھیلاؤ۔ اس لیے کہ کوئی بھی انسان اس وقت تک نہیں مرےگا، جب تک اسکی آخری روزی بھی اسکو نہ مل جائے جو اس کی تقدیر میں تھی۔ لہذا کسب حلال اور ترک حرام میں اچھا طریقہ اختیارکرو۔
اور آپ کو یہ بھی معلوم  ہونا چاہئے  کہ رزقِ حرام اور طریقہ کسب حرام، دونوں اللہ کے غضب کو بھڑکاتے ہیں۔ اس لیےکہ اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ پس جو شخص  مال حرام کماتا ہے، اس سے کھاتا اور پیتا اور پہنتا ہے، تو وہ اللہ کی رحمت سے بہت دورہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جب آدمی حرام  چیزوں کو حاصل کرتاہے، تو اس کی دوصورتیں ہوتی ہیں؛پہلی صورت  اپنے رب سےبدگمانی کی بنیاد پر، کہ وہ اگر اپنے رب سے ڈرتے ہوئے اس کی اطاعت کرتا اور کسب حلال کی کوشش کرتا تو اسکو اتنامال نہیں ملتا جتنا مال اس نے غلط طریقہ سے حاصل کرلیا ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ تقدیر  پر ایمان بھی رکھتا ہے اور اللہ کو رزّاق بھی مانتاہے؛لیکن اس پر اس کا نفس غالب آجاتاہے اور وہ اپنا صبر  کھو بیٹھتا ہے۔
چنانچہ پہلا شخص وہ ہے جس کا علم کمزور ہے۔  اور دوسرا  شخص وہ ہے، جس کی عقل اور بصیرت کھو گئی ہے۔" (الفوائد: 48)
اتنا ہی نہیں بلکہ رزق حلال کی برکتوں میں یہ بھی ہے کہ جب انسان اس سے صدقہ وخیرات کرتاہے، یا زکاۃ نکالتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرتاہے اور اس مال کو بڑھاتابھی ہے۔


 (Lawful and unlawful earning)
حلال ذرائع سے رزق کا حصول اور حرام سے اجتناب:


       اسلام چاہتا ہے کہ ہر شخص جائز اورحلال ذرائع سے رزق حاصل کرے، ناجائز اور حرام ذرائع سے دور رہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جائز ذرائع سے رزق حاصل کرے گا تو منافع کا تبادلہ برابری کی بنیاد پر ہو گا، جس کی وجہ سے دوسرے فرد یا معاشرہ کو فائدہ پہنچے گا لیکن اگر کوئی شخص ناجائز ذرائع سے روزی حاصل کرے گا تو اس کا نقصان دوسرے فرد یا معاشرے کو ہو گا، جب کہ اسلام منافع کا تبادلہ برابری کی بنیاد پر چاہتا ہے، وہ کسی بھی شخص کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے ذاتی فائدے کے لیے دوسرے کسی فرد یا سماج کو نقصان دے۔ اس لیے اسلام ہر اس ذریعہ سے روزی حاصل کرنے کو حرام اورناجائز قرار دیتا ہے جس کے اختیار کرنے سے دوسرے فرد یا معاشرے کو جانی، مالی، دینی یا اخلاقی نقصان پہنچے، جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے:
فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ
So eat of that [meat] upon which the name of Allah has been mentioned, if you are believers in His verses.
تو جس چیز پر (ذبح کے وقت) خدا کا نام لیا جائے اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھا لیا کرو۔
قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔
Al-An'am, Ayah 118))

         Say, "I do not find within that which was revealed to me [anything] forbidden to one who would eat it unless it be a dead animal or blood spilled out or the flesh of swine - for indeed, it is impure - or it be [that slaughtered in] disobedience, dedicated to other than Allah . But whoever is forced [by necessity], neither desiring [it] nor transgressing [its limit], then indeed, your Lord is Forgiving and Merciful."
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے

(Surah 6. Al-An'am, Ayah 145)


وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
And it is He who subjected the sea for you to eat from it tender meat and to extract from it ornaments which you wear. And you see the ships plowing through it, and [He subjected it] that you may seek of His bounty; and perhaps you will be grateful.
اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زیور (موتی وغیرہ) نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس لیے بھی (دریا کو تمہارے اختیار میں کیا) کہ تم خدا کے فضل سے (معاش) تلاش کرو تاکہ اس کا شکر کرو.
(النحل:113،14)

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
Prohibited to you are dead animals, blood, the flesh of swine, and that which has been dedicated to other than Allah , and [those animals] killed by strangling or by a violent blow or by a head-long fall or by the goring of horns, and those from which a wild animal has eaten, except what you [are able to] slaughter [before its death], and those which are sacrificed on stone altars, and [prohibited is] that you seek decision through divining arrows. That is grave disobedience. This day those who disbelieve have despaired of [defeating] your religion; so fear them not, but fear Me. This day I have perfected for you your religion and completed My favor upon you and have approved for you Islam as religion. But whoever is forced by severe hunger with no inclination to sin - then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے.
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
They ask you, [O Muhammad], what has been made lawful for them. Say, "Lawful for you are [all] good foods and [game caught by] what you have trained of hunting animals which you train as Allah has taught you. So eat of what they catch for you, and mention the name of Allah upon it, and fear Allah." Indeed, Allah is swift in account.
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا کرو اور (شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا جلد حساب لینے والا ہے
)AL-MAEDA 3,4(
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"کسب الحلال فریضة بعد الفریضة"
           رزقِ حلال کی تلاش فریضہ عبادت کے بعد اہم فرض ہے۔“ ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اپنے لیے اوراپنے اہل وعیال کے لیے حلال رزق تلاش کرو، یہ بھی جہاد فی سبیل الله ہے ۔“ ایک اور روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی بھی کھانا نہیں ، الله کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔
          حضرت عبدالله بن عباس زرہیں بنایا کرتے تھے، آدم علیہ السلام زراعت کرتے تھے، نوح علیہ السلام بڑھئیکا کام کرتے تھے اورادریس علیہ السلام درزی تھے اورموسی علیہ السلام بکریاں چراتے تھے۔
         کسب حلال کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ۔
        اصحاب کرام نے عرض کیا: اے الله کے رسول ! کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! میں بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ حدیث کے راوی سوید کہتے ہیں : آپ صلی الله علیہ وسلم ہر بکری ایک قیراط (1.8 رتی سونا) کے عوض چراتے تھے۔
        جب الله تعالیٰ کے آخری پیغمبر بکریاں چراتے ہوں اور وہ بھی اپنی نہیں، بلکہ محنت اوراجرت پر، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کسب حلال کو کتنی اہمیت دیتا ہے اوراسے عظمت بخشتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس عمل میں امت کے لیے درس ہے کہ عظمت محنت میں ہے بیکار بیٹھنے یا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں نہیں۔ یہی سبب ہے، کہ اصحابِ کرام کی نظر میں بھی کسبِ حلال کی بہت بڑی اہمیت تھی، جیسا کہ ذیل کے واقعات سے ظاہر ہے۔

حلال اور حرام کا اثر(Effect of halal and haram)
       اسلامی تعلیمات کے مطابق حلال خوری انسانی سیرت وکردار پر بہت زیادہ مثبت اثر چھوڑتی ہے، جب کہ حرام خوری بہت زیادہ منفی اثر چھوڑتی ہے، یہی سبب ہے کہ الله تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:﴿یٰایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا انی بما تعملون علیم﴾ اے پیغمبرو! حلال اور پاک چیزوں سے کھاؤ اور اچھے اعمال کرو، بلاشبہ میں تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہوں"۔
اس آیت کی تشریح میں علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:” الله تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو پہلے حلال اور طیب رزق کھانے کی ہدایت کی اورپھر اچھے اعمال کا حکم دیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال خوری نیک اعمال کے لیے مدد گار ہے۔“ علامہ مراغی فرماتے ہیں: نیک اعمال کا حکم دینے سے پہلے حلال کھانے کا حکم دینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نیک اعمال اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک حلال نہ کھایا جائے۔
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ.
 And Allah presents an example: a city which was safe and secure, its provision coming to it in abundance from every location, but it denied the favors of Allah . So Allah made it taste the envelopment of hunger and fear for what they had been doing.
اور خدا ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے کہ (ہر طرح) امن چین سے بستی تھی ہر طرف سے رزق بافراغت چلا آتا تھا۔ مگر ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر (ناشکری کا) مزہ چکھا دیا
وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
And there had certainly come to them a Messenger from among themselves, but they denied him; so punishment overtook them while they were wrongdoers.
اور ان کے پاس ان ہی میں سے ایک پیغمبر آیا تو انہوں نے اس کو جھٹلایا سو ان کو عذاب نے آپکڑا اور وہ ظالم تھے .
فكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ.
Then eat of what Allah has provided for you [which is] lawful and good. And be grateful for the favor of Allah , if it is [indeed] Him that you worship.
پس خدا نے جو تم کو حلال طیّب رزق دیا ہے اسے کھاؤ۔ اور الله کی نعمتوں کا شکر کرو۔ اگر اسی کی عبادت کرتے ہو۔
(النحل114،115)

(Halaal and HaraamSources) حلال اورحرام ذرائع


        رزق حاصل کرنے کے حلال اورجائز ذرائع بہت ہیں، ان میں سے چند اہم یہ ہیں:تجارت، زراعت، ملازمت، صنعت وحرفت اورمحنت مزدوری وغیرہ۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کے پیروکار جائز ذرائع سے روزی حاصل کرکے اپنی جائز ضرورتیں اورخواہشیں پوری کریں۔
اور رزق حاصل کرنے کے حرام اورناجائز ذرائع بہت ہیں، جن میں سے کچھ اہم یہ ہیں: چوری، لوٹ کھسوٹ، سود، قمار،ناپ تول میں کمی بیشی، رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، حرام اورناجائز چیزوں کا کاروبار، جیسے شراب ، ہیروئن، یا دوسری نشہ آور چیزوں کا کاروبار، جسم فروشی کا کاروبار، وغیرہ۔ رزق حاصل کرنے کے ان سب ذرائع کو اسلام حرام اور ناجائز قرار دیتا ہے اوران سے بچنے کی تاکید کرتا ہے۔

(Beverage) شراب

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
O you who have believed, indeed, intoxicants, gambling, [sacrificing on] stone alters [to other than Allah ], and divining arrows are but defilement from the work of Satan, so avoid it that you may be successful.
اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پاسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔

 (Bribery) رشوت

            رشوت کی تعریف : حق کو ناحق بنا دینے یا نا حق کو حق بنا دینے کے لئے جو مال یا کوئی چیز دی جائے وہ رشوت کہلاتی ہے ۔
           رشوت کا حکم : چونکہ اسلام، دینِ حق ، دینِ عدل اور دینِ قویم ہے اس لئے اس نے رشوت کی جملہ صورتوں کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے ، اس کے مرتکب اور اس پر معاون کو سخت عذاب کی دھمکی دی ہے اور ایسے شخص کو ملعون اور اپنے در سے دھتکارا ہوا بتلایا ہے ۔
 وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ‘‘{البقرة:188} "
"اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھا یا کرو ، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا لیا کرو ، حالانکہ تم جانتے ہو "
          حدیث میں ہے :"رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں " { الطبرانی الکبیر – مجمع الزوائد :4/199، بروایت ابن عمرو .
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ ‏۔( سنن أبو داود : حدیثِ شریف 3580 ، القضاء – سنن الترمذي :1337، الأحكام – سنن ابن ماجه :2313 ، الأحكام
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی ہے.

سود (RIBA):

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

Al-Baqara -278

ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم صاحبان هایمان ہو

[YOUSAF ALI] O who believe! Fear Allah, and give up what remains of your demand for usury, if ye are indeed believers.

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

Aal-`Imraan -130

اے ایمان والو یہ دوگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور ا للہ سے ڈرو کہ شاید نجات پاجاؤ

[YOUSAF ALI] O ye who believe! Devour not usury, doubled and multiplied; but fear Allah; that ye may (really) prosper.
تجد الجواب في حديث جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ رواه مسلم رحمه الله في صحيحه رقم (مسلم، رقم1598)"
سے روایت ھے کہ: جَابِرٍ رضي الله عنه
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ،سودکھلانے والے،سود لکھنے والے اور سود پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی،اور فرمایا:کہ گناہ میں سب برابر ہیں
The Prophet may curse the receiver and the payer of interest, the one who records it and the two witnesses to the transaction and said: "They are all alike [in guilt]."
          سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا ;" جاہلیت کے تمام سودی معاملات کالعدم کردئے گئے ہیں ، اب اصل رقم ملے گی سود نہیں ملے گا، نہ تم ظلم کر سکو گے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا، سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس ابن عبد المطلب کا سود کالعدم کرتا ہوں "      ۔(مسلم :۴/۳۹، رقم الحدیث: ۳۰۰۹(
پر سر کارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سات چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں ، شرک ، جادو، خون ناحق ، سودخوری، مال ِ یتیم ہڑپ کرنا ، جہاد سے راہ فرار اختیار کرنا اور پاک دامن عورت پر تہمت لگانا۔ (بخاری شریف : ۳/۱۰۱۷)
ایک حدیث میں ہے کہ سود کھانے والاقیامت کے دن پاگل اور مخبوط الحواس ہوکر اٹھے گا۔
                                   (مجمع الزوائد: ۴/۲۱۴ )
سود خور کی اس کیفیت کا بیان قرآن کریم میں بھی ہے فرمایا :  :" جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح وہ شخص کھڑا ہوتا ہو جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو."    (البقرہ ۲۷۵)۔

(Measure fluctuations) ناپ تول میں کمی بیشی

          ناپ تول میں کمی بیشی نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: زمین و آسمان کواُس نے ایک میزان پر قائم فرمایا ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ انسان بھی اپنے دائرہ اختیار میں انصاف پر قائم رہے اور ہمیشہ صحیح پیمانے سے ناپے اور ٹھیک ترازو سے تولے۔ سورہ رحمن میں ہے:
وَالسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ.
(55:7-9)
اور اُس نے آسمان کو اونچا کیا اور اُس میں میزان قائم کی کہ تم بھی (اپنے دائرہ اختیار میں اِسی طرح ) میزان میں خلل نہ ڈالو، اور انصاف کے ساتھ سیدھی تول تولو اور وزن میں کمی نہ کرو۔
          اِس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک عظیم حکم ہے اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے اُسی میزان انصاف کی فرع ہے جس پر یہ دنیا قائم ہے۔ چنانچہ اِس سے انحراف اگر کوئی شخص کرتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ عدل و قسط کے تصور میں اختلال واقع ہو چکا اور خدا کے قائم بالقسط ہونے کا عقیدہ باقی نہیں رہا۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ معیشت اور معاشرت کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور تمدن کی کوئی اینٹ بھی اپنی جگہ پر قائم نہیں رہتی۔ سیدنا شعیب کی قوم اِسی بیماری میں مبتلا تھی۔ اُن کی نصیحت قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر نقل ہوئی ہے۔ سورہ شعراء  میں فرمایاہے:
اَوْفُوا الْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ وَلَاتَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَ ہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ.          (26: 181-183)
         تم پورا ناپو اور کسی کو گھاٹا نہ دو، اور صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔
        اشیا میں ملاوٹ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اگر کوئی شخص دودھ میں پانی، شکر میں ریت اور گندم میں جو ملا کر بیچتا ہے تو اِسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اِس لیے کہ پورا تول کر بھی وہ خریدار کو اُس کی خریدی ہوئی چیز پوری نہیں دیتا۔ یہ درحقیقت دوسرے کے حق پر ہاتھ ڈالنا ہے جس کا نتیجہ دنیا اور آخرت، دونوں میں یقینا برا ہو گا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو، اِس لیے کہ یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی اچھا ہے۔



References:


http://qurango.com/hadees.html
Ṣaḥīḥ Al-Bukhārī
Sahih Muslim
http://www.kalamullah.com//
Ahkam-E-Tijarat Aur Lain Dain K Masayal By Mulana Abdul Rhman Gilani
Http://Www.Islamicacademy.Org/Html/Articles/Anwar-Ul-Hadees/Rizq_E_Halal.Htm
Rizq E Halal By Syed Mehmood Shmad Rizvi
Rizq-Ki-Kunjiyan-Quran-W-Sunnat-Ki-Roshni-Me By Dr.Fazal Illahi
Sood Rishwat Aur Sawal Quran -W-Hadis Ke Roshni Me By Mulana Muhammad Abdul Qavi

 DOWNLOAD AS [PDF]

Comments

Popular posts from this blog

BIOPHARMACEUTICS BY LEONE SHARGEL, 7TH ED [PDF]

                                           DOWNLOAD

Precipitation-----Process of precipitation and its applications in Pharmacy.

                PRECIPITATION Supervised by;                                    Dr. Khezar Hayat Prepared by:                            Dr. Ali Mansoor                              Dr. Harry Hamid                            Dr. Abdullah Yaqoob  Precipitation Precipitation is the formation of a solid in a solution during a chemical reaction. When the chemical reaction occur the solid formed is called, precipitate. This can occur when an insoluble substance, the precipitate, is formed in the solution due to a reaction or when the solution has been supersaturated by a compound. The formation of precipitate is a sign of a chemical change. In the most situations, the solid forms out of solute phase, and sink to the bottom of solution(though it will float if it is less dense than the solvent or form suspension). Precipitate:        When the reaction occurs, the solid formed is called precipitate . Precipitant:      The agents which cause precipitation from a s

MISCELLANEOUS PROCESSES (Efflorescence, deliquescence, lyophillization, elutrition, exiccation, ignition, sublimation, fusion, calcination, adsorption, decantation, evaporation, vaporization, 27 centrifugation, dessication, levigation and trituration.)